the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
ناظم الدین فاروقی
آج کا نوجوان ترقی کی راہیں ہموار کرتے ہوئے عروج پر پہنچنے کے لئے کوشاں ہیں مسلم نوجوان بھی ان کا ایک حصہ ہے ، تعلیم ،ٹکنالوجی ،اسکیل کے حصول کے لئے جدو جہد میں لگا ہوا ہے اس کا دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تہذیب وتمدن ، اخلاقیات ،اصول حیات اور اپنے مذہبی تشخص کو بھلا کر اغیار کے ساتھ تر قی کے دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ، ہما ر ے نو جو ان نے گلوبل معاشرہ میں شعور کی آنکھ کھولی ہے یہ عصر و حا ضر کے معاشرہ کی راست اثر انگیزی کا نتیجہ ہے جس کی مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آرہی ہیں ، ہمارا نوجوان سرے سے یہ بھول چکا ہے کہ امت کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ہماری بنیادی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ عالمی اور قومی اور مقامی سطح پر مسلمانوں کی ترجیحات اور مسائل کیا ہیں ۔ خا ص کریورپ اور امریکہ میں مسلم نوجوان دوراہے پر کھڑا ہے عقیدہ کے ساتھ فکری ،نظریاتی اور کردار کے انحطاط کا شکار مہے ، حال ہی میں اسکی ایک قبیح مثال سامنے آئی ہے ۔
آمنہ فاروقی میری لینڈ یونیور سٹی امریکہ کی پاکستانی نژاد 21سالہ سینئر طالبہ ہے وہ J. Streetیوطلباء تنظیم کے قومی صدر کی حیثیت سے منتخب ہوئی ، دراصل J.street u Studentٹھیٹ قدامت پرست یہودیوں کی تنظیم ہے ، دنیا میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک یہودی تنظیم کے صدر کی حیثیت سے غیر یہودی مسلمان کو اکثریت سے منتخب کیاگیا ، اس کا چرچہ امریکہ کے میڈیا میں بڑے پیمانے پر ہوا ، آمنہ سے جب انٹرویو لیاگیا تو اس نے بتایا کہ میں پاکستانی نژاد ہوں مجھے قرآن پڑھنا اچھی طرح آتا ہے ، وہ یہودیوں کو بہت پسند کرتی ہے اور یہودی کاز کی بڑی مداح ہے ،جب اس سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا آپ یہودی ہیں تو اسنے نفی میں جواب دیا ۔ J Stret کی رکنیت صرف یہودیوں کے لئے مختص ہے ،پھر آپ کو جو پیدائشی مسلمان ہیں صدر منتخب کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ میرا بچپن سے بڑا وقت یہودیوں کے ساتھ گذارا ہے میرا گھر بھی یہودیوں کے محلے میں تھا ، میں نے یہودیوں کے فلا ہی اداروں میں اپنی خدمات انجام دینے کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے ۔
جب اس سے پوچھا گیا کہ 60سال سے اسرائیل فلسطین تنازعہ چل رہا ہے اور بڑے پیمانے پر فلسطینیوں پر صہیونی طا قت ان پر مظا لم ڈھا ر ہی ہے۔ مظالم کا لا متنا ہی سلسلہ جا ری ہے ، کیا آپ کو ان مظلوموں سے ہمدردی نہیں ہے تواس نے کہا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی اور غلط پروپگنڈے کا نتیجہ ہے ۔ ہر فہم وفراست رکھنے والا مملکت اسرائیل کی بھر پور تائید کرتا ہے اور میں بھی اسرائیل کی زبردست مداح اور ہمنوا ہوں ۔ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کو صحیح تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
فلسطینیوں کو اسرائیل میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے رہنے اور بسنے کا پورا حق حاصل ہے ۔ لیکن فلسطینیوں کے یہودیوں کے ساتھ ساتھ بار بار اشتعال انگیزی اور لڑائیوں نے امن کو درھم برھم کر رکھا ہے ۔ فلسطینیوں کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ ایک جمہوری ملک میں ان کے کیا حقوق اور ذمہ داریاں ہیں ۔اس طالبہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ دنیا میں پہلی مسلمان ہیں جو اسرائیلی مملکت کی تائید میں مختلف مہمات چلارہی ہیں ۔ اس نے جواب دیا کہ ہماری کوششوں سے کئی مسلمان نوجوان ، تعلیم یافتہ اور دانشور وں وخواتین کی اسرا ئیل کے سلسلہ میں سوچ وفکر مثبت تبدیلی ہے ، میں اسرائیل کے موقف کی یوں ہی تائید نہیں کرتی ہوں میں اچھی طرح اسرائیل کی پالیسی کو جانتی ہوں اور گہری معلومات رکھتی ہوں ، میں کوشش کروں گی کہ فلسطینیوں کے ذہن وقلب میں اسرائیل کے سلسلہ میں جو عداوتیں بھری ہوئی ہیں اس کی صفائی کروں ۔ دنیا کے مختلف حصوں سے آمنہ فاروقی کی مہم کے خلاف سخت تنقیدیں کی جارہی ہیں کہ یہ صہیونی طاقت کی آلہ کار ہے ، اسرائیلی سفاکانہ مظالم اور جارحیت کے تعلق سے ذہن بدل کرکے مسلمانوں میں خوش فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اسرائیل کے تائیدی غیر یہودی گروپس دنیا میں فعال ہیں ان میں عیسائی مبلغوں کی ایک تنظیم کرسچین یونائٹیڈ فار اسرائیل اینڈ انٹر فینتھ شامل ہے ، ایسے سینکڑوں گروپس کو اسرائیل نے کام پر لگا رکھا ہے ۔ خاص کر مسلم نوجوان نسل پر انکی توجہہ مرکوز ہے ۔
آمنہ فاروقی کی ایک مثال درج کی گئی ہے ایسے لاکھوں مسلم نوجوان مرد وخواتین ہیں جو شطحیات اور انحرافات کا شکار ہیں ۔غزوالغربی نے ان میں ایک غلغلہ انگیز کیفیت پیدا کردی ہے ۔ حق وباطل کا فرق مٹ چکا ہے عقیدہ مومن اور اسلامی اصول حیات ، صاف شفاف کردار ، فہم وفکر ونظر اور اسلامی تہذیب وتمدن وتشخص ان کی نظر میں فرسودہ ہو چکے ہیں ۔ مغربی اقوام کی مفسدوپر فتن افکار وتہذیب کے خوشہ چین بن چکے ہیں ، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ترقی کا بلو پرنٹ اقوام عالم کے اسلام دشمن دانشگہوں سے ملا اسپر ہمارے نوجوان چلنے اور مرمٹنے کے لئے تیار ہیں ، محض یورپ اور امریکہ کی تعلیم وتعلم کی ادھو ری کوشش ہمارے نوجوان نسل میں وہ نتائج پیدا نہیں کر سکتی جو تعلیم وٹکنالوجی کے ساتھ اسلامی تربیت سے پیدا ہوتی ہیں ۔ 
آ منہ فا ر و قی اسرا ئیل کا ز کی ہمنواء نا م نہا د مسلم خوا تین اسر ی نعنا نی ، ار شد منجی ، آفر یقی نزاد، امنہ و رود اور نو ل اقتصا دری کی قبیل سے تعلق رکھتی ہے ، اسریٰ نعمانی اور ارشد منجی نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئی کتابیں تحریر بن چکی ہیں ،اسریٰ نعمانی کے 50سے زیادہ ویب سائٹس ہیں ، لاکھوں کی تعداد میں مسلم خواتین اس کی فکر کے علمبردار بن چکی ہیں ، عورتوں کی مسجد میں امامت ،خطبہ جمعہ کا مسئلہ بھی اس نے پیدا کیا تھا ، اس کے بعد امریکہ کے سینکڑوں مسجدوں میں گمراہ نام نہاد مسلم خواتین نے صنفی امتیازات Gender Baseکو بنیاد بنا کر مساجد کمیٹیوں کے خلاف کئی مقدمات دائر کررہے ہیں ، ان عورتوں کا عدالتوں سے مطالبہ ہے کہ مردوں کی نماز کی صفوں میں برابر کاندھے سے کاندھا لگا کر عورتوں کو بھی نماز ادا کرنے کی کھلی اجازت دی جائے ، جماعت کے موقع پر عورتوں اور مردوں کے لئے مختص کردہ علیحدہ مقام کی پابندی کو برخواست کیا جائے ۔ 
آمنہ فاروقی بھی ان ہی گمراہ خواتین کی تحریک میں سے ایک ہے جو صہیونی طاقت کی ایماں پر اسطرح کی سر گر میو ں میں ہمہ تن مصروف ہے ۔
عہد ماضی میں مسلمانوں کی ایمپائر کی تعمیر میں یونانی ، فارسی ، رومی ، عیسائی اور یہودی ہندی سب اپنی مرضی سے شامل ہوا کرتے تھے ، آج عیسائی اور یہودی ، ایمپائر کی تعمیر کے لئے مسلم نوجوان شعوری اور غیر شعوری طور پر جد وجہد میں لگا ہوا ہے ۔
ہمارے نوجوانوں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ مسلمانان عالم کی کیا ترجیحات ہیں ، مسلمانوں کا 21ویں صدی میں کیا ایجنڈہ ہو سکتا ہے اور مسلم ایجنڈے کی تبلیغ کرنے والے ماہرین پیدا کرنا اولین ملی ذمی داری ہے ۔ جبکہ مسلم دشمن طاقتیں اپنے ہزاروں ترجمان پیدا کرتے رہتے ہیں ، اسکے مقا بل مسلمانوں کے ترجمان انتہائی پھسڈی اور پھسپھسے نظر آتے ہیں ۔
اگر مغربی مسلم نوجوانوں کا بغور جائزہ لیں تو یہ 4گروپس میں منقسم نظر آتے ہیں ایک تو وہ ہے جو اسلام سے مکمل طور پر مبرا ہو چکے ہیں ، ان کا والدین کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں دوسرا وہ گروہ ہے جو نان پراکٹسنگ مسلمس ہیں جو گمراہی اور مختلف لغویات ومنکرات ومحرمات میں پڑے ہیں ، تیسرا گروہ وہ ہے جو اعلاء اسلام اور باطل طاقتوں ایجنٹ اور آلہ کار کے طور پر باطل وفاسد نظریات کے ساتھ فعال ہے ،چو تھا ایک چھوٹا سا گروہ ہے جو اسلام کا علمبردار اور اسلامی تہذیب وتمدن کا محافظ ہے ۔
اول الذکر گروہ کی اکثریت ہے ، ا نکی بے لگام آزادی کا عالم یہ ہے کہ جو جس حال اور فکرکا حامل مل گیا اس کی اقتداء میں اپنے آپ کو جھونک دیتے ہیں ، کوئی ڈارون کی تھوری کا پرستار ہے تو کوئی چینی وجاپانی توہمات شٹوش کا حامل ہے کوئی بدھشٹو اور کوئی ہرے راما ہرے کرشنا کا پیرو کار ہے کوئی یوگا کا پرستار ہے ، کوئی وحدت ادیان کا تو کوئی LGBTکا سرگرم کارکن کوئی Gayتحریک کا علمبردار ہے ۔اسلام پسندوں کے درمیان اکثر یہ بات کی جاتی ہے کہ امریکہ ویورپ میں نوجوان اسلام پر سختی سے عمل پیرا ہیں ، انکی تعداد 4تا6فیصد سے بڑھ کر نہیں ہے ، اسلام کی آغوش میں آنے والے کم ہیں اسلام سے منحرف اور مرتد ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے ۔


font-size: 18px;">
مسلمانوں کے درمیان کھلے عام کئی طرح کے فرقے اور فتنے پیدا کئے جارہے ہیں ، مسلمان ،ترکی ، ایرانی، عربی ، افریقی ، چینی ، افغانی ، پاکستانی ، ملیشیائی وغیرہ قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں ان میں مختلف قسم کے ایسے افکارونظریات کو باضابطہ پروان چڑھایا جارہا ہے جو اسلام سے ٹکراتے ہیں ، پھرشیعہ ، سنی ، قادیانی ، اہل قرآن ، صوفی ، سلفی جماعتیں مسلکی اختلافات نے مسلمانوں کو دنیا طول وعرض میں کمزور کررہا ہے اسکے علا وہ بین مذہبی جوڑوں سے جو بچے پیدا ہوئے وہ اب جوان ہوچکے ہیں ، انکی تعداد لاکھوں میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہماری ماں مسلمان تھی ، یا ہمارا باپ مسلمان تھا ، اس کی بہترین مثال صدر امریکہ بارک حسین اوباما کی ہے ، کوئی گیریل حیدر ہے تو کوئی ایڈن عمر تو کوئی میری فاطمہ ہے ان کی بڑی تعداد لا مذہب ہے ، اپنے آپ کو مسلمان کہلانا معیوب سمجھتے ہیں ۔جو مسلم والدین راسخ العقیدہ ہیں وہ اس بات سے بہت پریشان ہیں کہ ان کا بیٹا کہیں ڈ ر گز اک عا دی نہ ہو جا ئے یا Gay نہ بن جائے ہم جنس پرست نہ بن جائے ۔ ایک مسلمان ڈاکٹر صاحب نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا کسی بھی لڑکی کولائے یہ بہتر ہے کہ کسی نوجوان مرد کو لا کر کہے کہ یہ میرا شریک حیات ہے ۔گھر پر اور اسلامی تعلیمات کے باوجود نوجوانوں میں استقامت کے ساتھ مذہب اسلام پر جمے رہنا بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ یہ مسئلہ نہ صرف نوجوانوں کا ہے بلکہ بڑی عمر کی خواتین اور مرد وعورت کا بھی ہے ، اسلام کے خلاف ہزاروں Websiteاور شوشل میڈیا میں بڑے پیمانے پر باضابطہ پروپگنڈہ جاری ہے ۔ Media کے ذر یعہ مسلمان بچوں اور نوجوانوں کو قریب کرتے ہوئے فحش واباحیت کو پروان چڑھا رکر مذہب بیزا ر بنا ر یے ہیں۔

شکاگو کے سبیربSubersabمیں ایک انٹر نیشنل صوفی سنٹر قائم ہے ، یہاں جائیں تو ایسا لگے گا کہ یہ واقعی اسلامی سنٹر ہے ، جگہ جگہ قر ا نی ایا ت کے طغرے لگے ہو ئے ہیں۔ جب ہم نے یہاں صوفی صاحب سے ملنے کی کوشش کی تو صوفیوں کے لباس میں باریش انگریز صوفی صاحب برآمد ے میں حاضر ہوئے انکی اہلیہ بھی مسلم خواتین جیسا لباس زیب تن کئے ہوئی تھیں ، ہم نے بڑی خوشی اور گرمجوشی سے گفتگو شروع کی ، جب ہم نے انسے دریافت کیا کہ آپ کب مسلمان ہوئے اور اسلام کی کونسی چیز نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے تو صوفی صاحب چونک گئے اور انہوں نے برملا کہا کہ نہیں ہم مسلمان نہیں ہیں ہم نے کبھی اسلام قبول نہیں کیا ۔ ہمارے حیرت کی انتہا نہ رہی ، پھر تجسس سے پوچھا کہ آپ کس مذہب کی پیروی کرتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ ہمارا مذہب عشق ہے ،صوفی نعمت اللہ و الکیانی سلسلہ کے خلیفہ ہیں ، ہمارے دنیا میں کئی سو مرکز ہیں ، لندن سے ہمارا ماہنامہ صوفی روحانی رہنما sufi spiritual guide شائع ہوتا ہے ، ہمارے فرقے میں تمام مذاہب کے لوگ آسکتے ہیں ۔
اس طرح کے باضابطہ سینکڑوں فرقے تیار کرکے انھیں بڑے پیمانے کی فنڈنگ کی جارہی ہے اور یہ مسلم نوجوانوں میں متحرک وفعال نظر آتے ہیں ، فکر ونظریات ، قول وفعل کی آزادی کے نام پر اسلام کے بنیادی اصول مذہب کا ڈسپلن اور مکانزم تمام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تے جا ر ہے ہیں ۔ امریکہ ویورپ میں مسلم والدین کی بڑی تعداد بچوں کو آزاد خیالی ، اور لوگوں میں گھل مل جانے کی تعلیم بچپن سے ہی د یتے ہیں جس کی وجہ سے تکثری امریکی سماج میں مسلم نوجوان لڑکے لڑکیاں مخرب اخلاق سر گرمیوں اور ڈرگس ، غیر شادی شدہ جوڑے بن کر زندگی گزارتے ہیں یہاںھنو ں، ہندؤں ، عیسائیوں ، یہودیوں او ر بے د ین افرادسے شادی رچائی جاتی ہے ، یہا ں اظہار منکرات مقصود نہیں بلکہ حقیقی صورت حال کا طائرانہ تجزیہ مقصود ہے ۔
اسلامک سنٹر اور مبلغین وواعظین ومصلحین کی کوششوں کا دائرہ داخلی طور پر بہت محدود ہے ، مسلمانوں کو عالمی سطح پر اپنے مذہب اسلام کے دفاع اور نوجوان نسل کے تحفظ کے لئے چو طرفہ لڑائی لڑنی چاہئے تھی وہ اس میں سراسر ناکام نظر آتے ہیں ، غزو الغزلی بی کی سرد جنگ میں ہمارے مفکرین دانشوروں اور منصوبہ سازوں سے بڑی لغزشیں اور اسٹراٹیجک تسامحات ہو تی ہیں ، لیکن متحدہ طور پر جس سطح پر کام ہونا چاہئے تھا وہ آج تک ہو نہ سکا ۔ عالمی طاقتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو ضرب کاری کی اس کا اثر مسلمانوں کی اصلاحی ، اور تعمیری تحریکات پر بھی پڑا ہے ۔ تعلیم وتربیت اور مسلمانوں کی تعمیر نو وترقی کے لئے صحیح سمت میں کام کرنے والے فعال وسرگرم ادارے متاثر ہوئے ہیں ، بڑے پیمانے پر طرح طرح کے الزامات اور مقدمات میں پھانس کر اس طرح اداروں کو بند کردیاگیا ، حتی کہ مسلم ممالک میں زکوۃ فنڈ پر بھی اپنا کنٹرول حاصل کرکے خدمت خلق کے تمام اداروں پر پابندیاں عائد کردی گئیں ، نوجوان نسل میں اصلاحی وتعمیری تحریکات کے لئے بڑے پیمانے پر وسائل وذرائع کی ضرورت ہوتی ہے ، اس زمرے میں آنے والے تمام تبرعات کو بند کردیا گیا ہے ، خلیجی ممالک کے کئی بلین ڈالرس عطیات UNOاور اسی طرح کے دوسرے عالمی اداروں کو دئے جا نے لگتے ہیں ، مسلمانوں کی دعوتی اخلاقی ، فلاحی رفاہی تنظیمیں اورادارے سر ما یہ کی شدید کمی کا شکارہیں جن سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ محدود پیمانے پر ہی سہی نوجوان نسل اصلاح اور مراجعت کا کام کرسکتے ہیں ۔
یہ نوجوان ساری ترقی اور طاقتور اقوام کی غلامی میں ربانی اور وحانی تعلیمات کو فراموش کر چکے ہیں ، دین اللہ کی رفعت ،عظمت اور جلالت سے قطعی نابلد ہیں ۔اسلام کی تعلیم ،ثقافت ، سیاست ، معیشت ، اقتصادیات ، تہذیب وتمدن سے نوجوانوں کو متعارف کروانا اور ان میں بڑے پیما نے پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ انکے عقدہ کے سا تھ عقل ،روح ،جسم کی تربیت کی ضرورت ہے ۔
مغربی معاشرہ میں اسلام اور نسل مسلم کا تحفظ بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھرا ہے ، بچوں کے 17سال کی عمر کو پہنچنے کے ساتھ والدین کے تمام اختیارات تعلیم وتربیت ،قانونا مسدود کر دئے جاتے ہیں ، بچے اور نوجوان کالجس اور آفس کے معاشرہ میں پروان چڑھتے ہیں ان کی سوچ وفکر طرز زندگی اور بے بصارتی کے ساتھ امر یکی معا شرہ مروجہ مفسد روایات کے شائق بن جاتے ہیں ۔
مغربی معاشرہ میں آنکھ کھولنے والے نوجوان میں روحانی تعلیمات کے ساتھ مسلم عالمی اور قومی ایجنڈے سے کما حقہ ، واقفیت ضروری ہے ، وہ نہیں جانتے کہ بحیثیت امت مسلمہ کے ہماری ترجیحات کیا ہیں ، ہمارے بنیادی مسائل کے حل کی گتھیاں کس طرح سے سلجھائی جا سکتی ہیں ، اگر انھیں گلوبلائزیشن کے تند وتیز ہواؤں کے رخ پر چھوڑدیا جائے تو پورے نسل مسلم گمراہی ، بے راہ روی ، ارتداد وبغاوت کے موجوں میں غرق ہو جائے گی یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں تاریخ کے اوراق گواہ ہیں ، جن یورپی ممالک میں 80%آبادی مسلمانوں کی ہوا کرتی تھی اب وہاں 0.1%مسلمان نہیں پائے جاتے ۔
ا نتہا ء پسند ی یا دہشت گر دی مسلما ن نو جوان نسل کا بہت بڑا مسلہ نہیں سب سے بڑامسلہ اسلا م سے دوری اور بغا وت کا ہے۔ اس پر سنجید گی سے غو ر کر کے ا جتما عی اقدا ما ت کی ضر ور ت ہے۔ 
امر یکہ ، یو رپ ، افر یقہ ، ایشیا میںآمنہ فاروقی کی طرح اسلامی تعلیمات سے برگشتہ ہو کر صہیونی طاقتوں کے لئے سرگرمی سے کام کرنے والے ہزاروں مسلم نژاد نوجوان ملیں گے جو اسلام اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ 
امت اسلامیہ اس وقت ساری دنیا میں آزادی ، حقوق تشخص،امن وترقی کی جد وجہد میں لگی ہوئی ہے ، دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف چیالنجیس کا سامنا ہے ، ڈیڑھ بلین مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ انتہا پسندی نہیں بلکہ اتحاد وترقی کا ایجنڈہ نہ ہو ناہے ، اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود اتنے بے بس مجبور کمزور ناتواں اور مفلوک الحال کیوں ہیں؟ اس کا جواب مسلم نوجوانوں دانشوروں اور انکی قیادت کرنے والوں کو تلاش کرنا پڑے گا ، ورنہ طاقتور اقوام اسی طرح امت اسلامیہ کو تباہ وبرباد کرتی رہے گی اور دنیا کی ترقی میں اور ایک صدی پیچھے ڈھکیل دے گی ۔

از: 
ناظم الدین فاروقی
M: 9246248205
E: nfarooqui1@hotmail.com
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.